یورپی رہنماؤں کی زیلنسکی کو بھرپور حمایت، ٹرمپ کا ایلچی ماسکو روانہ

0
19

یورپی رہنماؤں نے پیر کے روز یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کی بھرپور حمایت کا اظہار کیا، کیونکہ امریکہ اور یوکرین کے درمیان امن منصوبے میں ترمیم کے مذاکرات تعطل کا شکار ہیں، جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ایلچی ماسکو میں کریملن کو بریف کرنے کے لیے روانہ ہو گئے ہیں۔

زیلنسکی کو پیرس میں فرانسیسی صدر ایمانویل ماکرون نے گرمجوشی سے خوش آمدید کہا، جہاں دونوں رہنماؤں نے برطانیہ، جرمنی، اٹلی، پولینڈ اور یورپی یونین سمیت درجن بھر یورپی رہنماؤں کے ساتھ مشترکہ گفتگو کی۔ زیلنسکی نے ایکس پر لکھا کہ جنگ کو جلد از جلد ختم ہونا چاہیے اور اس سلسلے میں ہر عالمی رہنما کا کردار اہم ہے۔

ماکرون نے ایلیزے پیلس میں زیلنسکی کے ساتھ اعزازاتی دستے کے سامنے چلنے کی تصویر بھی شیئر کی۔

قبل ازیں زیلنسکی نے واضح کیا کہ امریکی امن منصوبے پر بات چیت کے دو دور مکمل ہونے کے باوجود امریکی اور یوکرینی مذاکرات کار ابھی تک ترمیمات کو حتمی شکل نہیں دے سکے۔ ابتدائی مسودے میں روس کے بنیادی جنگی مطالبات کو تسلیم کیا گیا تھا، جس پر یوکرین نے سخت اعتراضات اٹھائے۔

زیلنسکی نے اتوار کو فلوریڈا میں ہونے والے مذاکرات کے بعد کہا کہ کچھ سخت نکات اب بھی زیرِ بحث ہیں۔ یہ مذاکرات تاجر اسٹیو وٹکوف کے لگژری ریزورٹ میں ہوئے، جو ٹرمپ کے خصوصی ایلچی بھی ہیں۔ وٹکوف بعد ازاں ماسکو روانہ ہو گئے جہاں وہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے ملاقات کریں گے۔

اب تک امریکہ اور یوکرین نے 28 نکاتی مجوزہ منصوبے میں ہونے والی کسی بھی ممکنہ تبدیلی کو عوام کے سامنے نہیں لایا۔ کییف اور یورپی ممالک ان شقوں میں تبدیلی کے مطالبے پر قائم ہیں جن میں یوکرین کو مزید علاقہ چھوڑنے، فوج کی طاقت کم کرنے، نیٹو میں شمولیت ترک کرنے اور مغربی فوجوں کی تعیناتی پر پابندی کی بات کی گئی ہے۔ یوکرین کا کہنا ہے کہ یہ شرائط عملاً ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ اگرچہ عمل مشکل ہے مگر مذاکرات میں کچھ پیشرفت ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمل بہت نازک ہے اور اس میں روس بھی شامل ہے، جس کے ساتھ بات چیت وٹکوف کے ماسکو پہنچنے پر آگے بڑھے گی۔

یہ مذاکرات ایسے وقت ہو رہے ہیں جب یوکرین محاذِ جنگ پر پسپا ہو رہا ہے اور بدعنوانی کے بڑے اسکینڈل کا سامنا کر رہا ہے۔ زیلنسکی کے چیف آف اسٹاف، جو مذاکراتی ٹیم کی قیادت بھی کر رہے تھے، ان کے گھر پر چھاپہ پڑنے کے بعد استعفیٰ دے چکے ہیں۔ دو وزرا برطرف ہو چکے ہیں جبکہ زیلنسکی کے سابق کاروباری ساتھی کو بھی مشتبہ قرار دیا گیا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے جنگ کے جلد خاتمے کا وعدہ کرتے ہوئے مذاکرات میں پیش رفت نہ ہونے پر ناراضی کا اظہار کیا ہے۔

ادھر روس اپنی سخت گیر شرائط سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ پیر کے روز دنیپرو شہر میں روسی میزائل حملے میں کم از کم چار افراد جاں بحق اور چالیس زخمی ہوئے۔

روس نے ڈونیٹسک کے علاقے میں ایک اور بستی کلینووے پر قبضے کا دعویٰ کیا ہے، تاہم اس کی آزادانہ تصدیق ممکن نہیں۔ ماسکو تقریباً دو سال بعد پہلی بڑی کامیابی کے طور پر تباہ شدہ شہر پکرووسک کے قریب پیش قدمی کا دعویٰ بھی کرتا رہا ہے۔

روس یوکرینی شہروں پر رات کے وقت طویل فاصلے تک مار کرنے والے حملے تیز کر چکا ہے، جن کا نشانہ عموماً توانائی ڈھانچہ ہوتا ہے، جس سے شہری سخت سردی اور بجلی کی کمی کا شکار ہیں۔

دوسری جانب یوکرین بھی روس کی تیل برآمد کرنے والی تنصیبات کو نشانہ بنا رہا ہے۔ پیر کو کریملن نے قازقستان کی پائپ لائن کو سروس فراہم کرنے والی روسی آئل ٹرمینل اور بحیرہ اسود میں دو ٹینکروں پر یوکرینی حملوں کی مذمت کی۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں