دوشنبے (MNN) – تاجکستان نے روس اور ماسکو کی قیادت والے علاقائی سیکیورٹی اتحاد کے ساتھ مذاکرات شروع کر دیے ہیں تاکہ افغانستان کی غیر مستحکم سرحد پر مشترکہ گشت کے لیے روسی فوج تعینات کرنے کا امکان دیکھا جا سکے۔ یہ بات منگل کو تین تاجک سیکیورٹی ذرائع نے رائٹرز کو بتائی۔
گزشتہ ہفتے افغان علاقے سے ہونے والے حملوں میں سرحد کے قریب پانچ چینی شہری ہلاک اور پانچ زخمی ہوئے، جس کے بعد چین نے اپنی شہریوں کو ہنگامی طور پر اس علاقے سے نکلنے کی ہدایت کی ہے۔
تاجک سلامتی کونسل کے ایک ذریعے کے مطابق حکام نے روس کے ساتھ اس بات پر گفتگو کی ہے کہ دوشنبے کے قریب واقع روسی فوجی اڈے سے اہلکاروں کو تعینات کر کے 1,344 کلومیٹر طویل تاجک۔افغان سرحد پر مشترکہ نگرانی کی جائے۔ یہ روس کا سب سے بڑا بیرونِ ملک فوجی اڈہ ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ فیصلہ اسی ہفتے متوقع ہے۔
دو دیگر سیکیورٹی افسران نے بھی مذاکرات کی تصدیق کی اور بتایا کہ ممکنہ معاہدے کی صورت میں روس ہیلی کاپٹروں کی مدد سے دشوار گزار پہاڑی سرحدی علاقے کی نگرانی میں حصہ لے گا۔ تاجکستان اور روس کی وزارتِ دفاع نے اس حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا جبکہ سی ایس ٹی او اتحاد نے بھی فوری ردعمل نہیں دیا۔
تاجک صدر امام علی رحمان نے پیر کو سیکیورٹی اداروں کے سربراہان سے صورتحال پر خصوصی اجلاس کیا۔ طالبان حکام نے کہا ہے کہ وہ سرحدی سیکیورٹی پر تاجکستان کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں۔
یاد رہے کہ 2000 کی دہائی کے اوائل تک روسی فوجی اور بارڈر ٹروپس تاجک۔افغان سرحد کی نگرانی کرتے تھے، تاہم 2005 سے تاجکستان نے سرحد کی خود نگرانی شروع کر دی ہے۔


