ٹرمپ انتظامیہ کا ہجرتی سہولیات پر بڑی پابندی، تمام سیاسی پناہ کی کارروائیاں معطل

0
14

واشنگٹن (ایم این این) – ٹرمپ انتظامیہ نے کئی دہائیوں بعد سب سے بڑی اندرونی سختی نافذ کرتے ہوئے امریکہ میں امیگریشن سہولیات پر وسیع پابندی عائد کر دی ہے۔

یو ایس سٹیزن شپ اینڈ امیگریشن سروسز (USCIS) کو ہدایت دی گئی ہے کہ تمام سیاسی پناہ (اسائلم) کی درخواستوں کا فیصلہ فوری طور پر روک دیا جائے اور 19 “ہائی رسک” ممالک کے شہریوں کی بڑی تعداد میں دائر کردہ درخواستوں کو معطل کر دیا جائے۔ ساتھ ہی پہلے سے منظور شدہ ہزاروں کیسز کو دوبارہ سکیورٹی جانچ کیلئے کھولا جائے گا۔

یہ حکم اس ہفتے USCIS کے فیلڈ دفاتر کو بھیجا گیا، جو حالیہ واقعات کے بعد سامنے آیا جن میں سابقہ پروگراموں کے تحت داخل کیے گئے افغان شہری ملوث تھے۔

وائٹ ہاؤس نے نتیجہ اخذ کیا کہ 2021 سے 2024 تک کی جانچ کے طریقہ کار میں سنگین خامیاں تھیں، جس کے بعد پورے سسٹم کی ازسرِنو ترتیب کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

یہ پابندی صدراتی پروکلیمیشن 10949 کا داخلی تسلسل ہے، جس کے تحت جون میں انہی 19 ممالک کے شہریوں کی امریکہ میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔

اب امریکہ کے اندر موجود انہی ممالک کے شہری بھی سخت پابندیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہوم لینڈ سکیورٹی سیکریٹری کرسٹی نوم نے فہرست کو 30 سے زائد ممالک تک بڑھانے کی سفارش بھی کر دی ہے۔

اپنے بیان میں نوم نے دعویٰ کیا کہ امریکہ کی بنیاد قربانیوں اور آزادی کی محبت پر رکھی گئی تھی، نہ کہ "غیر ملکی حملہ آوروں” کے لیے۔

یہ بیان صدر ٹرمپ سے ملاقات کے بعد سامنے آیا، جنہوں نے حالیہ دنوں میں امیگریشن قوانین مزید سخت کرنے کے لیے متعدد ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیے ہیں۔

USCIS کی ہدایات کے مطابق تمام اسائلم درخواستوں کا فیصلہ فوری طور پر روک دیا جائے گا، خواہ درخواست گزار کسی بھی ملک سے ہو۔ امیگریشن وکلاء کا کہنا ہے کہ تاریخ میں پہلی بار اسائلم کے تمام معاملات اس طرح مکمل طور پر معطل کیے گئے ہیں۔

یہ حکم 19 ممالک کے شہریوں کی دیگر امیگریشن سہولیات بھی منجمد کر دیتا ہے، جن میں گرین کارڈ کی درخواستیں، سفری دستاویزات، متبادل گرین کارڈ، پیرو ل میں توسیع، اور نیچرلائزیشن کے لیے مسلسل رہائش برقرار رکھنے کی درخواستیں شامل ہیں۔ یہاں تک کہ معمولی خدمات، جیسے گم شدہ گرین کارڈ کا نیا اجرا، بھی روک دی گئی ہیں۔

سب سے نمایاں قدم پہلے سے منظور شدہ کیسز کا دوبارہ کھلنا ہے۔ USCIS کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ 20 جنوری 2021 کے بعد امریکہ میں داخل ہونے والے ان 19 ممالک کے شہریوں کے تمام منظور شدہ کیسز دوبارہ جانچ کے لیے کھولے۔ کئی افراد کو لازمی انٹرویو دینا پڑیں گے اور اگر کوئی خدشہ سامنے آیا تو کیس قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھیج دیا جائے گا۔

میمو میں دو واقعات کا بھی حوالہ دیا گیا جنہوں نے یہ اقدام تیز کیا: ناصر احمد توحیدی کا اعتراف جرم، جس پر 2024 کے الیکشن ڈے پر داعش سے متاثر حملے کی منصوبہ بندی کا الزام تھا، اور رحمان اللہ لکنوال کی گرفتاری، جس پر واشنگٹن میں نیشنل گارڈ کے اہلکار کے قتل کا الزام ہے۔

دونوں افراد 2021 کے بعد امریکہ میں داخل ہوئے تھے، اور حکام کے مطابق ان کیسز نے شناخت کی تصدیق اور بین الادارہ جاتی جانچ میں سنگین خامیاں ظاہر کیں۔

میمو میں صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر 14161 کا بھی ذکر کیا گیا ہے، جس پر انہوں نے اپنے پہلے ہی دن دستخط کیے تھے اور جس کے تحت امیگریشن سسٹم کی کمزوریوں کا ازسرِنو جائزہ لینے کا حکم دیا گیا تھا۔

نئے ضوابط کے تحت وہ افراد بھی دوبارہ جانچ کا سامنا کر سکتے ہیں جنہوں نے پہلے پس منظر کی تمام جانچیں کامیابی سے مکمل کر لی تھیں، بشمول کچھ گرین کارڈ ہولڈرز اور اسائلم حاصل کرنے والے افراد۔

USCIS کا کہنا ہے کہ تاخیر ناگزیر ہے، لیکن قومی سلامتی کو ترجیح دی جائے گی۔ فی الحال یہ واضح نہیں کہ اسائلم کارروائیاں یا دیگر معطل شدہ سہولیات کب بحال ہوں گی۔

اس سے قبل نوم نے قانونی ماہرین کو محکمہ انصاف میں بطور ڈی پورٹیشن جج شامل ہونے کی دعوت دی تھی، جس کے لیے سالانہ تنخواہ 159,951 سے 207,500 ڈالر تک مقرر کی گئی ہے۔

امیگریشن حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ اقدام ملک گیر سطح پر اسائلم سسٹم کو عملی طور پر بند کر دیتا ہے اور کئی سالوں کے مکمل کیسز دوبارہ کھول دیتا ہے۔ جبکہ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات امریکیوں کے تحفظ کے لیے ضروری ہیں۔

فی الحال ہزاروں اسائلم درخواست گزار اور فہرست میں شامل ممالک کے شہری غیر یقینی صورت حال میں ہیں کیونکہ حکومت امیگریشن اسکریننگ کے ایک "ٹاپ ٹو باٹم” جائزے میں مصروف ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں