ترکی ثالثی وفد کی آمد میں تاخیر طالبان کے عدم تعاون کا نتیجہ ہے، پاکستان

0
10

اسلام آباد (ایم این این) – دفتر خارجہ نے جمعے کو کہا کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کم کرانے کے لیے ترکی کے اعلیٰ سطحی ثالثی وفد کی آمد میں مسلسل تاخیر طالبان حکومت کے عدم تعاون کی وجہ سے ہے۔

ترکی اور قطر نے حالیہ ہفتوں میں اسلام آباد اور کابل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے بعد کئی مذاکراتی دور کی میزبانی کی تھی۔ ترک صدر رجب طیب اردوان نے ایک وفد اسلام آباد بھیجنے کا اعلان کیا تھا مگر اب تک یہ دورہ ممکن نہیں ہوسکا۔

ترکی۔قطر کوششوں سے ایک کمزور جنگ بندی ہوئی تھی، جس کے بارے میں ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ یہ اس لیے برقرار نہ رہ سکی کیونکہ اس کا انحصار دہشت گردانہ سرگرمیوں کے خاتمے پر تھا۔

ہفتہ وار بریفنگ میں ترک وفد کی عدم آمد سے متعلق سوال پر ترجمان نے کہا: پاکستان ہر وقت تیار تھا اور ہے۔ میرا خیال ہے کہ وفد کے نہ آنے کی وجہ شیڈولنگ مسائل اور شاید طالبان حکومت کا عدم تعاون ہے۔ اس بارے میں طالبان سے پوچھا جائے۔ ہماری پوزیشن بالکل واضح ہے۔

ترجمان نے کہا کہ پاکستان نے صدر اردوان کے اعلان کا خیرمقدم کیا تھا اور ترک وفد کو مذاکرات کے لیے خوش آمدید کہنے کے لیے تیار ہے۔ تاہم ان کے دورے کے بارے میں کسی حتمی شیڈول سے وہ آگاہ نہیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ ترک وفد کی عدم آمد کو پاکستان کے عدم تعاون سے جوڑنا غلط ہے۔

سعودی عرب بھی ایک علیحدہ مصالحتی کوشش میں مصروف ہے اور جلد ایک اور دور متوقع ہے۔ اتوار کو ریاض میں پاکستان اور افغان حکام کے درمیان خفیہ مگر اہم مذاکرات ہوئے تھے لیکن دونوں فریق اپنے مؤقف سے نہ ہٹے اور بات چیت آگے نہ بڑھ سکی۔ ترجمان نے کہا کہ انہیں سعودی مذاکرات کے بارے میں کوئی معلومات نہیں۔

ترجمان نے کہا کہ پاکستان اصولی طور پر کسی بھی ثالثی کا خیرمقدم کرتا ہے، کیونکہ افغانستان سے دہشت گردی کے معاملے پر پاکستان کا مؤقف اخلاقی، قومی اور بین الاقوامی قانونی اصولوں کے مطابق ہے۔

ترجمان نے مزید بتایا کہ اقوام متحدہ کی درخواست پر پاکستان نے افغانستان کے لیے امدادی سامان کی فراہمی کی منظوری دے دی ہے، جو اکتوبر میں روٹین ٹریڈ کی معطلی کے بعد پہلی منظم نقل و حرکت ہے۔

انہوں نے بتایا کہ امداد تین مراحل میں بھیجی جائے گی: پہلے مرحلے میں خوراک، دوسرے میں ادویات و طبی آلات، اور تیسرے مرحلے میں تعلیم و صحت سے متعلق دیگر ضروری سامان۔ یہ تقسیم صرف عمل کو مؤثر بنانے کے لیے کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ انسانی امداد کی اجازت کے باوجود تجارتی اور ٹرانزٹ سرحدیں بدستور بند رہیں گی۔ پاکستان کو افغان عوام سے کوئی دشمنی نہیں، وہ ہمارے بھائی بہن ہیں اور ہم ان کے لیے مثبت اور تعاون کی پالیسی رکھتے ہیں۔

ترجمان نے آخر میں کہا کہ سرحدی پابندیاں اس وقت تک برقرار رہیں گی جب تک طالبان اپنی سرزمین سے پاکستان میں داخل ہونے والے دہشت گرد عناصر کو روکنے کے لیے مؤثر اقدامات نہیں کرتے۔

اگر آپ اس خبر کو مزید مختصر، مزید تفصیلی، یا ٹی وی/ریڈیو کے انداز میں چاہتے ہیں تو بتا دیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں