مسلم اور عرب ممالک کا فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کی ہر کوشش کو مسترد کرنے کا اعلان

0
11

اسلام آباد (ایم این این) – مسلم اور عرب ممالک نے جمعہ کے روز جاری مشترکہ بیان میں فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنے کی کسی بھی کوشش کو مکمل طور پر مسترد کر دیا۔

یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیل نے اعلان کیا کہ وہ رفاہ بارڈر کراسنگ یکطرفہ طور پر کھول کر غزہ کے رہائشیوں کو باہر جانے کی اجازت دے گا۔ اس اقدام کو مصر نے فوراً رد کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ محاصرہ دونوں سمتوں میں ختم کیا جائے تاکہ محصور فلسطینیوں کو حقیقی ریلیف مل سکے۔

مصر نے ایسے کسی عمل کو قبول کرنے سے انکار کیا جسے ناقدین فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی قرار دے رہے ہیں، اور مطالبہ کیا کہ امریکہ کی ثالثی سے طے پانے والے امن منصوبے پر مکمل عملدرآمد کیا جائے جس کے مطابق مکمل انسانی رسائی ضروری ہے۔

رفاہ کراسنگ، جو غزہ کے عوام کے لیے بیرونی دنیا کا واحد راستہ ہے جو اسرائیل کے براہ راست کنٹرول میں نہیں، کئی ماہ سے بند ہے جس کے باعث امداد کی فراہمی شدید متاثر ہوئی ہے۔

مصر، اردن، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، ترکیہ، سعودی عرب اور قطر کے وزرائے خارجہ نے مشترکہ بیان میں رفاہ کراسنگ کو فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کے لیے استعمال کرنے پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔

وزرائے خارجہ نے فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے اس امن منصوبے پر عملدرآمد پر زور دیا جو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نام سے منسوب ہے۔ اس منصوبے کے مطابق رفاہ کراسنگ کو دونوں سمتوں میں کھلا رکھنا، آبادی کی آزادانہ نقل و حرکت یقینی بنانا اور غزہ کے رہائشیوں کو علاقہ چھوڑنے پر مجبور نہ کرنا بنیادی نکات ہیں۔

بیان میں اس بات پر زور دیا گیا کہ فلسطینیوں کو اپنی سرزمین پر قائم رہنے اور اپنے وطن کی تعمیر میں حصہ لینے کے لیے موزوں حالات پیدا کیے جائیں۔

وزرائے خارجہ نے جنگ بندی کے تسلسل، انسانی امداد کی بلا روک ٹوک فراہمی، بحالی اور تعمیرنو کے عمل کے آغاز، اور غزہ میں فلسطینی اتھارٹی کی ذمہ داریوں کی بحالی کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ امن منصوبے پر مکمل اور بروقت عملدرآمد ہی خطے میں پائیدار امن اور استحکام کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔ مشترکہ بیان میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2803 سمیت تمام متعلقہ قراردادوں کے نفاذ کے لیے امریکہ اور عالمی فریقوں کے ساتھ قریبی تعاون کے عزم کا اظہار کیا گیا۔

وزرائے خارجہ نے ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی ضرورت دہراتے ہوئے کہا کہ یہ ریاست 4 جون 1967 کی سرحدوں کے مطابق ہو، جس میں غزہ اور مغربی کنارہ شامل ہوں اور اس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو۔

ڈار کی سعودی وزیر خارجہ سے گفتگو

ڈپٹی وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے اسرائیل کی جانب سے رفاہ کراسنگ کو صرف غزہ کے رہائشیوں کے خروج کے لیے محدود کرنے کے فیصلے کو امن منصوبے کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔

دفتر خارجہ کے مطابق ڈار نے سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان سے ٹیلیفونک گفتگو کی جس میں خطے کی صورتحال، خصوصاً غزہ پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

ڈار نے اسرائیل کے یکطرفہ اقدام کی شدید مذمت کی اور کہا کہ یہ انسانی امداد کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ دونوں وزرائے خارجہ نے غزہ کو بلا تعطل امداد کی فراہمی اور دیرپا امن کے لیے مشترکہ کوششوں کے عزم کا اظہار کیا۔

ادھر اے ایف پی کے مطابق جنگ بندی کے اگلے مرحلے پر مذاکرات میں کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی، جبکہ جنگ بندی خود بھی نازک مرحلے سے گزر رہی ہے۔

امن کے پہلے مرحلے میں اسرائیلی افواج نے 10 اکتوبر کو کچھ علاقوں سے انخلا کیا لیکن پھر بھی غزہ کے نصف سے زیادہ حصے پر ان کا عسکری کنٹرول برقرار رہا۔ اسی مرحلے میں حماس یا اس کے اتحادیوں کے پاس موجود تمام زندہ یا مردہ قیدیوں کی رہائی اور امداد میں اضافہ بھی شامل تھا۔

13 اکتوبر کو تمام زندہ قیدیوں کو رہا کر دیا گیا تھا، تاہم ایک لاش اب بھی غزہ میں موجود بتائی جاتی ہے۔ اسرائیل نے دوسری مرحلے کے مذاکرات سے قبل آخری مغوی کی باقیات کی واپسی کو لازمی شرط قرار دیا ہے، جبکہ امریکہ، مصر، قطر اور ترکیہ ثالثی کر رہے ہیں۔

مصر جلد غزہ کی تعمیر نو اور انسانی ضروریات پر کانفرنس بھی منعقد کرے گا، تاہم تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا۔ مبصرین کے مطابق امن منصوبے کے مبہم نکات ہی اس عمل میں تاخیر کا باعث بن رہے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں