پاکستانی شہروں میں آلودگی کی بڑی وجہ مقامی اخراج، رپورٹ میں انکشاف

0
6

اسلام آباد (MNN)؛ پاکستان ایئر کوالٹی انیشی ایٹو (PAQI) کی جانب سے منگل کو جاری کی گئی جامع قومی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک کے بڑے شہری مراکز میں خطرناک حد تک آلودہ فضائی کیفیت کی بنیادی وجہ مقامی ذرائعِ اخراج ہیں۔

PAQI، جو فضائی آلودگی کے خلاف تحقیق اور آگاہی کا ایک آزاد ادارہ ہے، نے اپنی اہم تحقیق Unveiling Pakistan’s Air Pollution: A National Landscape Report on Health Risks, Sources and Solutions شائع کی ہے۔ یہ پاکستان کی پہلی ملٹی سیکٹورل ایمیشنز انوینٹری ہے جس میں واضح کیا گیا ہے کہ شہری اسموگ زیادہ تر ملک کے اندرونی ایئرشیڈز سے پیدا ہوتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق زہریلی فضائی آلودگی ایک عام پاکستانی کی اوسط عمر میں 3.9 سال کی کمی کا سبب بن رہی ہے۔

یہ تحقیق سیٹلائٹ ڈیٹا، کیمیکل ٹرانسپورٹ ماڈلنگ اور PAQI کے ملک گیر ریئل ٹائم مانیٹرنگ نیٹ ورک کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے، جو پاکستان کا سب سے بڑا اوپن ایکسس ایئر کوالٹی نظام ہے۔ اس میں کراچی، لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی اور پشاور سمیت بڑے شہروں میں PM2.5 کی شدت، ذرائع اور صحت پر اثرات کا تفصیلی نقشہ پیش کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہر شہر کا ایمیشن پروفائل مختلف ہے۔
لاہور میں ٹرانسپورٹ، صنعت اور بھٹیاں آلودگی کے بڑے ذرائع ہیں۔
کراچی میں تقریباً نصف PM2.5 صنعتی سرگرمیوں سے پیدا ہوتا ہے۔
اسلام آباد اور راولپنڈی میں ٹرانسپورٹ نمایاں ذریعہ ہے، جبکہ پشاور وادی نما جغرافیائی ساخت اور ٹرانزٹ ٹریڈ کی وجہ سے سب سے زیادہ فی کس آلودگی کا سامنا کرتا ہے۔

مختلف ماہرین، جن میں سابق جسٹس سید منصور علی شاہ، سینیٹر شیری رحمان اور عابد سلیری شامل ہیں، نے اس رپورٹ میں ماحولیاتی انصاف، آئینی حقوق اور ادارہ جاتی اصلاحات کے تناظر میں ڈیٹا کو پرکھا ہے۔

PAQI کے بانی عابد عمر نے کہا کہ “یہ انوینٹری قیاس آرائیوں کے دور کا خاتمہ ہے۔ پہلی بار پاکستان کے پاس سائنسی اور ٹھوس ڈیٹا پر مبنی نقشہ موجود ہے۔ اب اصل امتحان عملدرآمد ہے۔”

پنجاب EPA نے نتائج مسترد کر دیے، رپورٹ کو ’غیر درست‘ قرار دے دیا

پنجاب انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی کے ترجمان ساجد بشیر نے PAQI کی تحقیق کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ادارے کے پاس رپورٹ کے لیے کافی ڈیٹا موجود نہیں تھا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت اربوں روپے کی سرمایہ کاری سے اخراج میں کمی لا رہی ہے اور لاہور کی 80 فیصد صنعتیں صاف ٹیکنالوجیز اختیار کر چکی ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ رپورٹ میں ملک بھر کے ہلکی و بھاری گاڑیوں، موٹر سائیکلوں، رکشاؤں اور بھٹیوں کا درست ڈیٹا شامل نہیں، جبکہ اصل بڑے آلودگی کے ذرائع ٹریفک اور بھٹیاں ہیں۔ انہوں نے PAQI سے سیٹلائٹ امیجری اور متعلقہ ڈیٹا کے ذرائع ظاہر کرنے کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ رپورٹ حکومت کی کوششوں کو نشانہ بناتی ہے، حالانکہ رواں سال اسموگ کے باعث تعلیمی ادارے بھی بند نہیں کیے گئے اور فضائی آلودگی میں نمایاں کمی آئی ہے۔

لاہور میں نومبر کے دوران فضائی آلودگی میں نمایاں کمی

اس سے قبل PAQI نے بتایا تھا کہ نومبر 2025 میں لاہور کے شہریوں کو گزشتہ سال کے مقابلے میں شدید اسموگ سے خاصی حد تک ریلیف ملا۔

اعداد و شمار کے مطابق نومبر کے دوران روزانہ کی بلند ترین PM2.5 سطح میں 56 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔ زیادہ سے زیادہ آلودگی اس ماہ 237 µg/m³ تک گئی، جو 14 نومبر 2024 کے خطرناک 539 µg/m³ کے مقابلے میں کافی کم ہے۔

اکتوبر میں عالمی مانیٹرنگ پلیٹ فارم IQAir نے لاہور کو دنیا کا دوسرا سب سے آلودہ شہر قرار دیا تھا۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں