اسلام آباد ہائی کورٹ نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کے اعتراضات مسترد کر دیے

0
2

اسلام آباد (ایم این این): اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی جانب سے ڈویژن بنچ کی تشکیل پر اٹھائے گئے اعتراضات مسترد کر دیے، جو ان کی قانون کی ڈگری اور جج کی حیثیت سے تقرری کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کر رہا ہے۔

منگل کو سامنے آنے والی عدالتی کارروائی کے مطابق، چیف جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر کی سربراہی میں جسٹس محمد اعظم خان پر مشتمل ڈویژن بنچ نے پیر کے روز سماعت کے دوران یہ اعتراضات خارج کر دیے۔ درخواست گزار وکیل میاں داؤد نے جسٹس جہانگیری کی اہلیت کو چیلنج کیا تھا۔

اسی بنچ نے ستمبر میں جسٹس جہانگیری کو عدالتی فرائض انجام دینے سے روکنے کا عبوری حکم دیا تھا، تاہم بعد ازاں سپریم کورٹ نے وہ حکم کالعدم قرار دے دیا تھا۔

جسٹس جہانگیری نے ذاتی حیثیت میں عدالت کے روبرو پیش ہو کر مؤقف اختیار کیا کہ درخواست کی سماعت سنگل بنچ کو کرنی چاہیے تھی۔ انہوں نے چیف جسٹس ڈوگر پر عدم اعتماد کا بھی اظہار کیا، جس کی بنیاد سپریم کورٹ میں دائر ایک انٹرا کورٹ اپیل کو بنایا گیا۔

عدالت کی جانب سے جاری تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ ایک حاضر سروس جج پر جعلی یا غیر قانونی ڈگری کے الزامات انتہائی حساس نوعیت کے ہیں، اس لیے ڈویژن بنچ کی تشکیل مناسب اور قانون کے مطابق ہے۔ عدالت نے واضح کیا کہ بنچز کی تشکیل چیف جسٹس کا انتظامی اختیار ہے۔

عدالت نے یہ بھی کہا کہ اس نوعیت کے معاملات ماضی میں بھی ڈویژن بنچز کے سامنے سنے جا چکے ہیں اور جسٹس جہانگیری کا اعتراض قانونی حیثیت نہیں رکھتا۔

چیف جسٹس پر عدم اعتماد کے حوالے سے عدالت نے نشاندہی کی کہ متعلقہ درخواست 24 نومبر کو وفاقی آئینی عدالت پہلے ہی مسترد کر چکی ہے۔ عدالت نے یاد دلایا کہ جسٹس جہانگیری اور دیگر چار ججز نے جولائی میں سپریم کورٹ کے اُس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی تھی جس کے نتیجے میں جسٹس ڈوگر کو سینیارٹی کی بنیاد پر چیف جسٹس بنایا گیا، تاہم وہ اپیل عدم پیروی پر خارج ہو گئی تھی۔

عدالت نے سپریم کورٹ کے سابقہ فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اعلیٰ عدالت کے جج اپنے ضمیر کے خود نگہبان ہوتے ہیں اور ہائی کورٹ کے جج کے خلاف جانبداری کی بنیاد پر کیس کی منتقلی کی درخواست قابل سماعت نہیں ہوتی۔ ان عدالتی نظائر کی روشنی میں چیف جسٹس پر عدم اعتماد کا اعتراض بھی مسترد کر دیا گیا۔

سماعت کے دوران جسٹس جہانگیری نے مؤقف اختیار کیا کہ انہیں کیس کا ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا، جس پر انہوں نے وکیل مقرر کرنے کے لیے مہلت طلب کی۔ عدالت نے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کو ہدایت کی کہ وہ اپنی رپورٹ اور منسلک دستاویزات جسٹس جہانگیری کو فراہم کرے۔

اس سے قبل 8 دسمبر کو ایچ ای سی نے عدالت میں تفصیلی رپورٹ جمع کرائی تھی، جس میں جامعہ کراچی کے اس مؤقف کی تائید کی گئی کہ جسٹس جہانگیری نے ایل ایل بی کی ڈگری غیر منصفانہ ذرائع سے حاصل کی۔

عدالت نے حکم دیا کہ درخواست، ایچ ای سی اور جامعہ کراچی کی رپورٹس کی نقول فریقِ مخالف کو فراہم کی جائیں، جبکہ اگلی سماعت 18 دسمبر کو مقرر کرتے ہوئے جامعہ کراچی کے رجسٹرار کو ڈگری کا مکمل ریکارڈ سمیت ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا گیا۔

کیس کا پس منظر
جسٹس جہانگیری کی ڈگری سے متعلق تنازع گزشتہ سال سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے ایک خط سے شروع ہوا، جو مبینہ طور پر جامعہ کراچی کے کنٹرولر امتحانات کی جانب سے جاری کیا گیا تھا۔ بعد ازاں جولائی میں سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایت دائر کی گئی اور رواں سال اسلام آباد ہائی کورٹ میں ان کی تقرری کو چیلنج کیا گیا۔

16 ستمبر کو آئی ایچ سی بنچ نے عبوری طور پر جسٹس جہانگیری کو عدالتی کام سے روک دیا تھا، جس پر قانونی حلقوں میں شدید بحث ہوئی۔ سپریم کورٹ نے بعد ازاں یہ حکم معطل کرتے ہوئے قرار دیا کہ ہائی کورٹ کو کو وارنٹو درخواست کی سماعت کے دوران کسی جج کو عدالتی فرائض سے روکنے کا اختیار نہیں۔

جسٹس جہانگیری اُن چھ ججز میں بھی شامل تھے جنہوں نے گزشتہ سال سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھ کر عدالتی امور میں خفیہ اداروں کی مبینہ مداخلت کی شکایت کی تھی، جس کے بعد عدالتی آزادی پر ایک وسیع تر بحث شروع ہوئی۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں