لاہور (ایم این این) — خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی جمعہ کے روز پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنوں کے ہمراہ لاہور پہنچے، جہاں انہوں نے لبرٹی چوک پر پارٹی کے احتجاجی مظاہرے کی قیادت کی۔
وزیراعلیٰ کا دورہ لاہور پی ٹی آئی کی مجوزہ اسٹریٹ موومنٹ کی قیادت اور مقامی قیادت سے ملاقاتوں کے لیے تھا۔
رات گئے لبرٹی چوک پر بڑی تعداد میں کارکنان اور حامی جمع ہوئے، جہاں وزیراعلیٰ نے نعرے بازی میں حصہ لیا۔ پارٹی کی جانب سے جاری ویڈیوز میں دیکھا گیا کہ کارکنان نے ان کی گاڑی پر پھول نچھاور کیے۔
اس موقع پر کے پی کے وزیر مینا خان آفریدی اور بانی پی ٹی آئی عمران خان کی بہنیں علیمہ خان اور نورین خان نیازی بھی موجود تھیں۔ پی ٹی آئی کے مطابق پنجاب پولیس نے ان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کیں۔
قبل ازیں، پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے کچھ رہنماؤں اور سیکیورٹی عملے کے درمیان تلخ کلامی اور دھکم پیل بھی ہوئی، جس کی ویڈیو پارٹی نے سوشل میڈیا پر شیئر کی۔
پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی ارکان سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے پنجاب کے عوام کا شکریہ ادا کیا، تاہم سفر کے دوران پولیس کے رویے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ پارٹی کارکنوں، رہنماؤں اور اراکین اسمبلی کو مختلف مقامات پر ہراساں کیا گیا اور گرفتاریاں کی گئیں۔
وزیراعلیٰ نے وفاقی حکومت کو معیشت، کسانوں کے مسائل، بے روزگاری اور سیاسی سرگرمیوں پر پابندیوں پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت عوامی مسائل حل کرنے کے بجائے پی ٹی آئی کے اجتماعات روکنے پر توجہ دے رہی ہے۔
دریں اثنا، امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر گلبرگ کے تاجروں نے رضاکارانہ طور پر دکانیں اور کاروبار بند کر دیے۔ تاجروں کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ ممکنہ سیکیورٹی خدشات کے باعث کیا گیا۔
صوبائی وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کو لاہور آمد پر خوش آمدید کہا، تاہم خبردار کیا کہ بدزبانی، انتشار یا سرکاری و عوامی املاک کو نقصان برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی سرگرمی کی اجازت ہے مگر قانون شکنی نہیں ہوگی۔
اس سے قبل وزیراعلیٰ آفریدی نے دعویٰ کیا کہ پنجاب میں داخلے کے دوران ان کے قافلے کی متعدد گاڑیوں کو روکا گیا اور کارکنوں کو گرفتار کیا گیا، جس سے صوبوں کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے۔
پی ٹی آئی قیادت کا کہنا ہے کہ پارٹی بانی عمران خان کی ہدایات کے مطابق احتجاجی تحریک جاری رہے گی اور لاہور کا مظاہرہ اس سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔


