ہفتہ, نومبر 8, 2025
ہومتازہ ترینڈیورنڈ لائن

ڈیورنڈ لائن

‎ ڈیورنڈ لائن والے “اخروٹ دماغ” افغانستان کو ایک ایسے ملک یا ریاست کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ جس کی سرحدیں گویا روز ازل سے بنا دی گئی تھیں اور ان میں تبدیلی و ترمیم ویسے ہی گناہ ہے جیسے الہامی کتب کے کلام میں ترمیم گناہ ہے۔ افغانستان کا کل رقبہ ساڑھے چھ لاکھ مربع کلومیٹر ہے اور اس کی سرحدیں پاکستان سمیت چھ ممالک سے ملتی ہیں جن میں پاکستان کے علاوہ ایران، ترکمانستان، ازبکستان، تاجکستان اور چین کے ساتھ ملتی ہیں۔ تمام ممالک کے ساتھ افغانستان کی سرحدیں قدرتی طور پر نہیں بنی ہوئی تھیں۔ یہ سرحدیں مختلف بادشاہتوں اور سلطنتوں کے ادوار میں باہمی معاہدوں کے تحت کھینچی گئی تھیں جن کو افغانستان کے مختلف ادوار کے حکمرانوں نے دستخط کئے اور حالات کی سیاست نے انہیں ایک پختہ شکل دی۔ مغرب میں ایران اور افغانستان کے درمیان 921 کلومیٹر سرحد کا تعین سر فریڈرک جان گولڈسمڈ کی ثالثی میں 1872 میں پُرامن طریقے سے ہوا تھا اور اس کا حتمی معاہدہ میک مان کمیشن کے ذریعے 1905 میں ہوا۔ ایران اور افغانستان کے درمیان سرحد کے دونوں پار ایک ہی زبان بولنے، ایک ہی مذہب کے ماننے والے اور ایک ہی تاریخ و ثقافت رکھنے والے لوگ بستے ہیں۔ ان سب کے باوجود دونوں ممالک اس سرحد کو احترام کرتے ہیں۔ شمال میں افغانستان کی سرحد ترکمانستان سے ملتی ہے جس کی لمبائی 804 کلومیٹر ہے۔ اور 144 کلومیٹر طویل سرحد ازبکستان کے ساتھ ملتی ہے۔
تاجکستان کے ساتھ افغانستان کی سرحد 1357 کلومیٹر طویل ہے۔
مزیداری کی بات یہ ہے کہ شمال کی یہ تمام سرحدیں سلطنت برطانیہ اور روس کے درمیان 1895 اور 1896 میں ہونے والے معاہدوں کے نتیجے میں کھینچی گئیں۔ بعد میں افغانستان کی مختلف حکومتوں نے بیسویں صدی میں سوویت یونین کے ساتھ ان کی سرحدوں کے متعلق مختلف معاہدے کئے۔ افغانستان کی سب سے کم سرحد چین کے ساتھ لگتی ہے جس کو 1963 میں ایک پر امن معاہدے کے تحت طے کیا گیا۔ اس کی کل لمبائی محض 91 کلومیٹر ہے۔
جنوب اور جنوب مشرق میں پاکستان کے ساتھ ملنے والی 2670 کلومیٹر طویل سرحد جسے ڈیورنڈ لائن کا نام دیا گیا، نہایت اہمیت کی حامل رہی۔ یہ لائن کسی جبر کے نتیجے میں نہیں کھینچی گئی تھی بلکہ تمام فریقین کی رضامندی سے متعین ہوئی تھی۔

‎اس سرحد کا تعین 1893 میں ہوا تھا اور اس معاہدے پر اس وقت امارت افغانستان کے امیر ، عبدالرحمن خان اور برطانوی سلطنت کے افسر اور سفارت کار مورٹیمر ڈیورنڈ نے دستخط کئے تھے۔
‎بعد ازاں افغانستان میں حکومت کی تبدیلی کے نتیجے میں افغانستان پر امان اللہ خان قابض ہوگئے اور انہوں نے بھی خود کو امیر قرار دے دیا۔ حکومت پر قابض کے بعد انہوں نے برطانیہ کے ساتھ جنگ شروع کر دی۔ اس جنگ کا نتیجہ پھر سے افغانستان کی شکست کی صورت میں نکلا اور افغان جتھوں کو برطانوی حکومت کے ساتھ امن کا معاہدہ کرنا پڑا۔ اس معاہدے پر حتمی طور پر 8 اگست 1919 کو پنجاب کے شہر راولپنڈی میں دستخط ہوئے۔ اس معاہدے کی شق پانچ کے تحت ڈیورنڈ لائن کو حتمی سرحد تسلیم کیا گیا۔ پھر ایک سال بعد دوبارہ اسی معاہدے کی تجدید کی گئی۔
‎جب 1947 میں پاکستان معرض وجود میں آیا تو افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ نے پاکستان کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کے لئے ہونے والی رائے شماری میں صرف افغانستان کا ووٹ پاکستان کے خلاف تھا۔ افغانستان کے حکمران کا کہنا تھا کہ وہ ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہیں کرتے اس لئے وہ پاکستان کے وجود کو بھی تسلیم نہیں کریں گے۔
‎یہی موقف آج تک افغانستان کے ہر حکمران نے اپنائے رکھا ہے۔
‎سوال یہ ہے کہ جب انگریزوں کی روس اور ایران کے ساتھ بنائی ہوئی سرحدیں تسلیم ہیں تو پاکستان کے ساتھ سرحد کیوں تسلیم نہیں ہے؟

By Muhammad Aslam

متعلقہ پوسٹ

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

- Advertisment -
Google search engine

رجحان