اقوام متحدہ کے عالمی موسمیاتی ادارے (WMO) نے خبردار کیا ہے کہ دنیا کے تقریباً نصف ممالک کے پاس انتہائی موسمی حالات سے متعلق ابتدائی وارننگ سسٹم موجود نہیں، جس کے باعث کروڑوں افراد خصوصاً ترقی پذیر ممالک میں شدید خطرات سے دوچار ہیں۔
جنیوا میں جاری ایک رپورٹ میں ادارے نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث بڑھتی ہوئی آفات کے دوران بروقت وارننگ سسٹم انسانی جانیں بچانے کے لیے نہایت ضروری ہیں۔ ادارے کے مطابق، ان نظاموں کی عدم موجودگی میں معاشی نقصانات اور بنیادی ڈھانچے کو نقصان کئی گنا بڑھ گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ گزشتہ 50 سالوں میں موسم، پانی اور آب و ہوا سے متعلق آفات کے نتیجے میں 20 لاکھ سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں، جن میں سے 90 فیصد ہلاکتیں ترقی پذیر ممالک میں ہوئیں۔
ادارے کے مطابق، اگرچہ گزشتہ دہائی میں نمایاں پیش رفت ہوئی ہے اور ملٹی ہیزرڈ وارننگ سسٹم استعمال کرنے والے ممالک کی تعداد 52 سے بڑھ کر 108 ہو گئی ہے، لیکن اب بھی کئی ممالک کے پاس صرف بنیادی سطح کی صلاحیت موجود ہے۔ 62 ممالک کے جائزے کے مطابق، نصف کے پاس صرف بنیادی جبکہ 16 فیصد کے پاس اس سے بھی کم صلاحیت پائی گئی۔
WMO نے کہا کہ یہ صورتحال سب سے زیادہ خراب ان علاقوں میں ہے جو تنازعات یا عدم استحکام کا شکار ہیں۔ تاہم افریقہ میں بہتری کے آثار دکھائی دے رہے ہیں، جہاں کئی ممالک نے معیاری وارننگ جاری کرنے اور فعال ویب سائٹس قائم کرنے کا عمل شروع کیا ہے۔
عالمی موسمیاتی ادارے کی سیکرٹری جنرل سیلیسٹ ساؤلو نے کہا، “ابتدائی وارننگ کا مطلب ہے فوری عمل۔ ہمارا مقصد صرف خبردار کرنا نہیں بلکہ دنیا کو بااختیار بنانا ہے۔”
2025 میں دنیا بھر میں موسمیاتی آفات کی شدت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پاکستان، نائیجیریا اور جنوبی کوریا میں تباہ کن سیلاب جبکہ جنوبی یورپ اور امریکہ میں جنگلاتی آگ نے بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا ہے۔
سوئٹزرلینڈ کی وزیرِ داخلہ الیزبتھ باؤم شنائیڈر نے اجلاس میں کہا کہ کوئی ملک یا خطہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے محفوظ نہیں۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے بتایا کہ رواں سال مئی میں ایک گلیشیئر کے ممکنہ انہدام کی بروقت نگرانی کے باعث ایک سوئس گاؤں کو خالی کرا لیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ “پرمَافراسٹ کے پگھلنے سے آئندہ مزید گلیشیئرز گرنے اور چٹانوں کے سرکنے کے واقعات بڑھیں گے، اس لیے ابتدائی وارننگ سسٹم بقاء کے لیے ناگزیر ہیں۔”


