تحریر: ڈاکٹر فرقان راؤ
دنیا بھر میں اپنی ثقافتی وراثت، سائنسی کارناموں، تکنیکی جدت اور عالمی اثر و رسوخ کے باعث معروف روس آج ایک ایسی قوم کے طور پر سامنے آ رہا ہے جو براعظموں کے درمیان تعاون کو فروغ دے رہا ہے۔ ایشیا میں روس کے قابلِ اعتماد شراکت داروں میں پاکستان نمایاں حیثیت رکھتا ہے، جس کے ساتھ روس کے تعلقات باہمی احترام، مشترکہ مفادات اور بڑھتے ہوئے تعاون کی بنیاد پر مستحکم ہو رہے ہیں۔
پاکستان اور روس کے مابین سفارتی تعلقات 1948 میں قائم ہوئے تھے، جو ایک طویل تعلق کا آغاز تھا۔ سرد جنگ کے دور میں محدود روابط اور بداعتمادی کے باوجود، وقت کے ساتھ یہ تعلقات تجارت، ثقافت، توانائی، دفاع، تعلیم، صحت اور عوامی روابط جیسے شعبوں تک پھیل گئے ہیں۔ گزشتہ سات برسوں میں دونوں ممالک کے درمیان اعتماد اور تعاون میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جو تیزی سے بدلتے ہوئے جغرافیائی سیاسی حالات کا نتیجہ ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) نے بھی دونوں ممالک کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ روس نے پاکستان کی رکنیت کے عمل میں بھرپور تعاون کیا، اور ستمبر 2025 میں بیجنگ میں ہونے والے ایس سی او اجلاس کے موقع پر وزیراعظم شہباز شریف اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی ملاقات نے دوطرفہ تعلقات میں نئی جان ڈال دی۔ دونوں رہنماؤں نے تجارت، زراعت، ٹرانسپورٹ، دواسازی اور اسٹیل کے شعبوں میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا۔
تجارتی تعلقات کے فروغ کے لیے بین الحکومتی کمیشن (IGC) جیسے پلیٹ فارمز مؤثر کردار ادا کر رہے ہیں۔ دواسازی کے شعبے میں روسی اور پاکستانی کمپنیوں کے درمیان مشترکہ منصوبے صحت کے شعبے میں سستی سہولتوں کی فراہمی کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی کے تبادلے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔
2023 میں پاک روس تجارتی حجم ایک ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا، جو گزشتہ برس کے مقابلے میں تاریخی اضافہ ہے۔ یہ دونوں ممالک کے درمیان معاشی تعلقات کی مضبوطی کا واضح ثبوت ہے۔
روس کا پاکستان کے ساتھ تعاون کوئی نیا نہیں۔ 1970 کی دہائی میں سوویت یونین نے کراچی میں پاکستان اسٹیل مل کے قیام میں مرکزی کردار ادا کیا — جو دونوں ممالک کی دیرینہ دوستی کی علامت بن گیا۔ آج ایک بار پھر یہی اشتراکِ عمل مختلف شعبوں میں بحال ہوتا دکھائی دے رہا ہے، جس سے نہ صرف پارلیمانی سطح پر بلکہ عوامی روابط میں بھی نئی روح پیدا ہو رہی ہے۔
روس بین الاقوامی سطح پر مکالمہ، جدت اور تعاون کے فروغ کے لیے مختلف فورمز کا انعقاد کر رہا ہے۔ سینٹ پیٹرزبرگ انٹرنیشنل اکنامک فورم جیسے اجتماعات میں 144 ممالک کے ماہرین شریک ہوئے، جہاں پاکستان سمیت کئی ممالک نے تجارت، سرمایہ کاری اور پائیدار ترقی کے نئے مواقع دریافت کیے۔ اسی طرح گلوبل ڈیجیٹل فورم، جس میں 116 ممالک نے شرکت کی، نے مصنوعی ذہانت اور جدید ٹیکنالوجی کے حوالے سے سیکھنے کے مواقع فراہم کیے۔
روس کے لیے یہ کھلتا ہوا عالمی دروازہ پاکستان کے نوجوانوں کے لیے بھی امکانات پیدا کر رہا ہے۔ پاکستان کی 64 فیصد نوجوان آبادی تعلیم، روزگار اور کاروبار کے نئے مواقع روس میں تلاش کر سکتی ہے۔ فی الوقت تقریباً 1200 پاکستانی شہری روس میں مقیم ہیں۔
تعلیمی میدان میں بھی دونوں ممالک کے درمیان تعاون بڑھ رہا ہے۔ 2024 میں روسی اعلیٰ سطحی وفد کے دورہِ پاکستان کے دوران یونیورسٹیوں کے اشتراک، مشترکہ تحقیقی منصوبوں اور ٹیکنالوجی پر مبنی تعلیم پر اتفاق ہوا۔ 2025 میں اسلام آباد میں روسی ایجوکیشن ایکسپو اور ایک فسیلیٹیشن سینٹر کے قیام کا فیصلہ کیا گیا، جو دونوں ممالک کے تعلیمی تعلقات میں سنگ میل ثابت ہو گا۔
روس نے یوکرین تنازع کے بعد عالمی سطح پر غلط معلومات کے انسداد کے لیے گلوبل فیکٹ چیکنگ نیٹ ورک (GFCN) قائم کیا، جو درست معلومات کے فروغ اور میڈیا کی شفافیت کی عالمی کاوشوں کا حصہ ہے۔ “Dialog about Fakes 3.0” جیسے فورمز کے ذریعے روس ذمہ دار صحافت اور سچ پر مبنی ابلاغ کو فروغ دے رہا ہے۔
مزید برآں، روس پاکستان کی BRICS میں رکنیت حاصل کرنے کی کوششوں میں بھی مدد کر رہا ہے۔ ایسے حالات میں جب پاکستان یورپی ممالک کے ساتھ بھی خوشگوار تعلقات رکھتا ہے، روس کے ساتھ تعلقات کو ترجیح دینا قومی مفاد میں ہے۔ اس سے نہ صرف عالمی سطح پر پاکستان کے کردار کو تقویت ملے گی بلکہ نوجوانوں اور کاروباری طبقے کے لیے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔
لہٰذا، پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ روس کے ساتھ اپنے دوطرفہ اور اقتصادی تعلقات کو مزید وسعت دے۔ ان تعلقات کی مضبوطی سے پاکستان اپنے بین الاقوامی روابط کو متنوع بنا سکے گا، جبکہ روس جنوبی ایشیا میں اپنا اقتصادی اثر و رسوخ بڑھا سکے گا۔

مصنف سینئر صحافی، جی ایف سی این ایکسپرٹ، ایگزیکٹو ڈائریکٹر سی ڈی سی ایس، آئی سی ایف جے کے سابق فیلو اور تسنگ ہوا یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی ہیں۔ اُن سے رابطہ کے لیے ای میل کریں: furqanrao68@yahoo.com۔


