دفتر خارجہ کے ترجمان طاہر حسین اندرا بی نے جمعے کو اعلان کیا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ٹرانزٹ ٹریڈ موجودہ سیکیورٹی صورتحال کے مکمل جائزے تک بند رہے گا۔
اپنی پہلی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں انہوں نے کہا، “افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اس وقت نہیں ہو رہی اور یہ اس وقت تک بند رہے گی جب تک سیکیورٹی صورتحال کا جائزہ مکمل نہیں ہوتا۔” انہوں نے وضاحت کی کہ افغان سرحد کی جانب سے مسلسل حملوں کے نتیجے میں پاکستانی شہری جاں بحق ہوئے، اور حکومت کے نزدیک “شہریوں کی زندگیاں کسی بھی تجارتی سرگرمی سے زیادہ اہم ہیں۔”
انہوں نے زور دیا کہ افغان سرزمین کو پاکستان میں دہشت گردی کے فروغ یا معاونت کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ طاہر اندرا بی نے کہا کہ “جب طالبان نے اقتدار سنبھالا تو امید کی فضا تھی، لیکن ٹی ٹی پی اور دیگر شدت پسند گروہوں کے حملوں نے دونوں ممالک کے تعلقات کا ماحول بدل دیا ہے۔”
11 اکتوبر سے پاک افغان سرحد بند ہے، جب دونوں جانب جھڑپوں اور پاکستانی فضائی کارروائیوں میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔ یہ جھڑپیں 2021 کے بعد کی سب سے شدید ترین سمجھی جا رہی ہیں۔
تجارتی اور ٹرانزٹ سرگرمیاں مکمل طور پر معطل ہیں، جس سے تاجروں کو بھاری مالی نقصان کا سامنا ہے۔ قطر اور ترکی کی میزبانی میں ہونے والے مذاکرات میں فائر بندی پر اتفاق کے باوجود، سرحدی تجارت تاحال بحال نہیں ہو سکی۔
بلوچستان کے شہر چمن کے ایک اعلیٰ افسر نے بتایا کہ “سرحد 25 اکتوبر کو استنبول میں ہونے والے اجلاس سے قبل کھلنے کا کوئی امکان نہیں۔” اس اجلاس میں دونوں ممالک حالیہ سرحدی جھڑپوں کے بعد مستقبل کا لائحہ عمل طے کریں گے۔
اس دوران دوستی گیٹ کو عارضی طور پر افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے کھولا گیا، جبکہ ایف آئی اے کے امیگریشن دفاتر میں سرگرمیاں معطل ہیں، جس کے باعث سینکڑوں پاکستانی چمن اور 5 ہزار سے زائد اسپن بولدک میں پھنسے ہوئے ہیں۔
تاجروں نے حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ اقتصادی نقصان سے بچنے کے لیے جلد تجارتی راستے بحال کیے جائیں، تاہم حکام کا کہنا ہے کہ فیصلہ استنبول مذاکرات کے نتائج پر منحصر ہوگا۔


