اسلام آباد/استنبول: پاکستان نے افغان طالبان کو ایک جامع انسدادِ دہشت گردی منصوبہ حوالے کر دیا ہے، جس کا مقصد سرحد پار دہشت گردی کو روکنے کے لیے مؤثر مشترکہ نظام قائم کرنا ہے۔ یہ پیش رفت دونوں ممالک کے درمیان استنبول میں ہفتے کے روز ہونے والے دوسرے دور کے مذاکرات کے دوران سامنے آئی۔
ذرائع کے مطابق یہ مذاکرات اسلام آباد کی اُس سفارتی کوشش کا حصہ ہیں جس کے تحت افغانستان سے آنے والی دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے باہمی تعاون کا لائحہ عمل طے کیا جا رہا ہے۔ استنبول مذاکرات سے قبل قطر اور ترکی کی میزبانی میں 19 اکتوبر کو دوحہ میں پہلا دور ہوا تھا، جس میں فریقین نے جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا، تاہم سرحدی تجارت تاحال معطل ہے۔ افغان وفد کی قیادت نائب وزیر داخلہ رحمت اللہ مجیب کر رہے تھے۔
ترجمان دفتر خارجہ طاہر حسین اندرا بی نے جمعہ کے روز بتایا کہ پاکستان کو استنبول مذاکرات سے ایک قابلِ تصدیق نگرانی کا نظام قائم ہونے کی توقع ہے، تاکہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ “پاکستان ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر علاقائی امن و استحکام کا خواہاں ہے۔ ہم تصادم نہیں چاہتے، تاہم افغان طالبان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی بین الاقوامی ذمہ داریاں پوری کریں اور ٹی ٹی پی اور بی ایل اے جیسے گروہوں کے خلاف عملی اقدامات کریں۔”
ترجمان نے دوحہ مذاکرات کو علاقائی امن و استحکام کی جانب ایک مثبت قدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ چند دنوں میں افغان سرزمین سے کسی بڑے حملے کی اطلاع نہیں ملی۔ ان کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی صورتحال کے پیشِ نظر سرحدی راستے فی الحال بند رہیں گے، کیونکہ “ایک عام پاکستانی کی جان تجارت سے زیادہ قیمتی ہے۔”
دوسری جانب وزیر دفاع خواجہ آصف نے خبردار کیا ہے کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو پاکستان کو “ہمہ گیر جنگ” کے سوا کوئی راستہ نہیں بچے گا۔ سیالکوٹ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے نتائج ایک دو روز میں واضح ہو جائیں گے۔
خواجہ آصف نے بتایا کہ دوحہ مذاکرات میں طے پانے والے 80 فیصد نکات پر عملدرآمد شروع ہو چکا ہے۔ انہوں نے بھارت پر الزام لگایا کہ وہ افغان طالبان کے ذریعے پاکستان کے خلاف پراکسی جنگ لڑ رہا ہے۔ وزیر دفاع نے امید ظاہر کی کہ دونوں ممالک ایسے معاہدے پر پہنچ جائیں گے جو خطے میں دیرپا امن کو یقینی بنائے گا۔
یاد رہے کہ 11 اکتوبر سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی گزرگاہیں بند ہیں۔ رواں ماہ کے آغاز میں ہونے والی جھڑپوں میں دونوں جانب درجنوں افراد ہلاک ہوئے تھے، جو 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سب سے شدید لڑائی تھی۔ اگرچہ حالیہ جنگ بندی برقرار ہے، مگر تجارتی سرگرمیاں بدستور معطل ہیں۔


