اسرائیلی وزیرِاعظم بین یامین نیتن یاہو نے اتوار کے روز کہا کہ غزہ میں مجوزہ بین الاقوامی فورس میں کن ممالک کے دستے شامل ہوں گے، اس کا فیصلہ اسرائیل خود کرے گا۔ یہ فورس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے کے تحت جنگ بندی کے نفاذ کے لیے تشکیل دی جا رہی ہے۔
نیتن یاہو نے کابینہ اجلاس میں کہا کہ "ہم اپنی سلامتی کے معاملات پر مکمل کنٹرول رکھتے ہیں، اور یہ بات امریکہ کے اعلیٰ حکام کے لیے بھی قابلِ قبول ہے۔”
امریکی حکام کے مطابق واشنگٹن خود کوئی فوج نہیں بھیجے گا، تاہم انڈونیشیا، مصر، متحدہ عرب امارات، قطر، ترکی اور آذربائیجان سمیت کئی ممالک سے فورس میں شمولیت کے لیے بات چیت جاری ہے۔ اسرائیل نے خاص طور پر ترکی کے ممکنہ کردار پر اعتراض اٹھایا ہے۔
ترک صدر رجب طیب اردوان کی جانب سے غزہ پر اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے ہیں۔
امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ فورس میں صرف وہ ممالک شامل ہوں گے جن پر اسرائیل کو اطمینان ہو۔ انہوں نے مزید بتایا کہ امریکہ اس مشن کی منظوری کے لیے اقوامِ متحدہ کی قرارداد پر غور کر رہا ہے اور اس حوالے سے قطر میں بات چیت جاری رہے گی۔
اسرائیلی حکومت کے مطابق غزہ میں تاحال 13 مغویوں کی لاشیں موجود ہیں جنہیں بازیاب کرانا ممکن نہیں ہو سکا۔ اسرائیل نے مصر کی تکنیکی ٹیم اور ریڈ کراس کو لاشوں کی تلاش کے لیے غزہ کے مخصوص علاقوں میں داخلے کی اجازت دے دی ہے۔
نیتن یاہو نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ امریکہ اسرائیلی پالیسیوں پر اثرانداز ہوتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ "اسرائیل ایک خودمختار ملک ہے، امریکہ کے ساتھ ہمارا تعلق شراکت داری پر مبنی ہے۔”
ذرائع کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ نے نیتن یاہو کو جنگ بندی منصوبہ قبول کرنے اور قطر کے ساتھ معذرت کرنے پر آمادہ کیا، جبکہ عرب ممالک پر بھی زور دیا کہ وہ حماس کو تمام اسرائیلی مغویوں کی رہائی پر قائل کریں۔


