پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان جاری مذاکرات کو بچانے کی آخری کوششیں کی جا رہی ہیں، تاہم سیکیورٹی ذرائع کے مطابق کابل کی “ہٹ دھرمی” کے باعث بات چیت تعطل کا شکار ہے.
ذرائع کے مطابق استنبول میں ہفتے سے جاری دوسرے دور کے مذاکرات اپنے آخری مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں لیکن دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف قابلِ تصدیق کارروائی کے طریقہ کار پر اختلافات برقرار ہیں۔
قطر اور ترکی کی مشترکہ میزبانی میں 18 اور 19 اکتوبر کو دوحہ میں ہونے والے مذاکرات میں سرحدی جھڑپوں کے بعد مستقل جنگ بندی پر اتفاق ہوا تھا۔
ذرائع نے بتایا کہ پیر کے روز مذاکرات کا سلسلہ 18 گھنٹے تک جاری رہا، اس دوران افغان وفد نے پاکستان کے جواز پر مبنی مطالبات کو ابتدا میں تسلیم کیا، مگر بعد میں کابل سے موصول ہدایات پر مؤقف تبدیل کر لیا۔ ایک اعلیٰ سیکیورٹی اہلکار نے کہا کہ “کابل سے آنے والی غیر منطقی اور غیر قانونی ہدایات” مذاکرات کی ناکامی کا سبب بنیں۔
تاہم ترکی اور قطر کے ثالثوں نے امید ظاہر کی ہے کہ بات چیت کا تسلسل مثبت اشارہ ہے۔ ایک ثالث نے کہا، “اگرچہ حتمی معاہدہ نہیں ہو سکا، لیکن یہ حقیقت کہ دونوں فریق تین روز سے مسلسل مذاکرات میں مصروف ہیں، اس بات کا ثبوت ہے کہ کوئی بھی فریق عمل کو ناکام نہیں کرنا چاہتا۔”
پاکستانی حکام کے مطابق افغان طالبان کی جانب سے دہشت گرد تنظیموں کو پناہ دینا کسی طور قابلِ قبول نہیں۔ اگرچہ پاکستان کا مؤقف ثالثوں کی جانب سے “منطقی اور جائز” قرار دیا گیا ہے، مگر افغان وفد تحریری ضمانت دینے پر آمادہ نہیں ہو سکا۔
یہ مذاکرات اس وقت ہو رہے ہیں جب دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ بارہ اکتوبر کو طالبان اور ٹی ٹی پی کے حملے کے جواب میں پاکستان نے بھرپور کارروائی کی، جس میں 200 سے زائد دہشت گرد مارے گئے، جبکہ 23 پاکستانی جوانوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔
پاکستانی افواج نے افغانستان کے قندھار، کابل اور سرحدی علاقوں میں ٹھوس انٹیلی جنس کی بنیاد پر ٹارگٹڈ کارروائیاں کرتے ہوئے دہشت گردوں کے کئی ٹھکانے تباہ کیے۔
اگرچہ مذاکرات کا نتیجہ غیر یقینی ہے، لیکن دونوں ممالک نے تنازعہ کے خاتمے اور پائیدار امن کے لیے رابطے برقرار رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔


