اسلام آباد: جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے پیر کو واضح کیا کہ انہیں قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بننے کی کوئی خواہش نہیں ہے۔
اسلام آباد میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کے بعد غیر رسمی گفتگو میں مولانا فضل الرحمان نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ پیپلز پارٹی کا وفد انہیں اپوزیشن لیڈر کے لیے حمایت دینے آیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ "مجھے اپوزیشن لیڈر بننے میں کوئی دلچسپی نہیں، اور آج اس حوالے سے کوئی بات بھی نہیں ہوئی۔” ان کا کہنا تھا کہ انہیں علم ہے کہ ان کی جماعت کے کتنے ارکان اسمبلی میں موجود ہیں، اور وہ انہی کے ساتھ اپوزیشن بنچوں پر بیٹھیں گے۔
مولانا فضل الرحمان نے بتایا کہ بلاول بھٹو کے ساتھ ملاقات میں کسی آئینی ترمیم پر گفتگو نہیں ہوئی، البتہ سیاسی معاملات پر تبادلہ خیال ہوا اور دونوں جماعتوں نے رابطہ برقرار رکھنے پر اتفاق کیا۔
انہوں نے بلاول بھٹو کی جانب سے دی گئی دعوت بھی قبول کرلی اور کہا کہ "یہ ملاقات بالکل غیر رسمی تھی، کسی مخصوص ایجنڈے کے بغیر۔”
ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اگر انہیں پاک–افغان امن مذاکرات میں کردار ادا کرنے کے لیے کہا گیا تو وہ مثبت جواب دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ "قومی مفاد ہماری پہلی ترجیح ہے، اور ہم اسی کے مطابق عمل کریں گے۔”
مولانا نے کہا کہ پالیسی اختلافات کے باوجود جے یو آئی (ف) یہ نہیں چاہتی کہ ملک کے مسائل بڑھیں۔ انہوں نے کہا، "پاک–افغان کشیدگی دونوں ممالک کے مفاد میں نہیں ہے۔”
انہوں نے ماضی کی افغان پالیسیوں پر بھی سوال اٹھایا اور کہا، "اگر ہم افغانستان اور بھارت دونوں سے لڑنا چاہتے ہیں تو ہماری سفارتی گہرائی کہاں گئی؟”
بلاول بھٹو زرداری کے ہمراہ نئیر حسین بخاری، ہمایوں خان اور جمیل سومرو شامل تھے، جبکہ مولانا فضل الرحمان کے ساتھ مولانا اسد محمود اور مفتی ابرار موجود تھے۔
ذرائع کے مطابق ملاقات میں آزاد جموں و کشمیر میں حکومت سازی کے معاملے پر بھی مشاورت ہوئی، جہاں مولانا فضل الرحمان نے اپنی رائے اور تجاویز پیش کیں۔


