پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) نے پلاننگ کمیشن کے راستہ (RASTA) منصوبے کے تعاون سے ایک سیمینار کا انعقاد کیا جس کا عنوان تھا: "پاکستان کا زیرِ زمین پانی کا بحران: پالیسی اسباق اور پائیدار وسائل کے استعمال کا فریم ورک”۔
سیمینار کی صدارت ڈاکٹر محمد فیصل علی (ریسرچ فیلو، پائیڈ) نے کی، جبکہ مرکزی مقرر راستہ کے سماجی ماہر اور پروجیکٹ منیجر، نظام مقبول تھے۔
ابتدائی گفتگو میں ڈاکٹر فیصل نے بتایا کہ پاکستان تیزی سے پانی کی قلت کے شکار ملک میں تبدیل ہو رہا ہے، جہاں فی کس پانی کی دستیابی 1947 میں 5,000 مکعب میٹر سے کم ہو کر اب 1,000 مکعب میٹر سے بھی نیچے جا چکی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ جہاں ماحولیاتی تبدیلی اور سطحی پانی کی کمی پر توجہ دی جاتی ہے، وہاں زیرِ زمین پانی — جو ملک کی “خاموش زندگی کی لکیر” ہے — کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
نظام مقبول نے اپنی تفصیلی پریزنٹیشن میں بتایا کہ پاکستان دنیا کے خشک ترین ممالک میں سے ایک ہے، جہاں اوسط سالانہ بارش صرف 494 ملی میٹر ہے۔ دریائے سندھ کا نظام ملک کے 96 فیصد پانی کی فراہمی کا ذریعہ ہے، جس کا تقریباً 78 فیصد پانی پاکستان سے باہر سے آتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے پاس دنیا کا چوتھا بڑا آبی ذخیرہ (Aquifer) ہے، لیکن ہر سال 10 ارب مکعب میٹر زیادہ پانی نکالا جا رہا ہے جو قدرتی ری چارج سے زائد ہے۔
انہوں نے بحران کی جڑ کو نوآبادیاتی دور کے نہری نظام اور بعد ازاں ریاستی ٹیوب ویل پروگراموں سے جوڑا، جس کے نتیجے میں آج ملک میں ڈیڑھ ملین سے زائد غیر ریگولیٹڈ کنویں موجود ہیں۔ غیر منظم نکاسی اور بجلی کی سبسڈی نے پانی کے ذخائر کو تیزی سے ختم کیا اور آلودگی بڑھا دی، جس کے باعث 6 کروڑ افراد آرسینک زدہ پانی کے استعمال پر مجبور ہیں، جب کہ 70 فیصد شہری اور 80 فیصد دیہی آبادی غیر محفوظ پانی پر انحصار کر رہی ہے۔
انہوں نے اس بحران کی اصل وجہ کمزور طرزِ حکمرانی کو قرار دیا، خاص طور پر قومی سطح پر زیرِ زمین پانی کے قانون کی عدم موجودگی، اداروں کے درمیان اختیارات کی تقسیم، اٹھارویں ترمیم کے بعد ہم آہنگی کی کمی، اور وسائل کی شدید قلت۔
نظام مقبول نے تجویز دی کہ پاکستان میں پانی کے مسئلے کے حل کے لیے سات نکاتی پالیسی فریم ورک اپنایا جائے:
- قومی گراؤنڈ واٹر کونسل کا قیام؛
- صوبائی لائسنسنگ، میٹرنگ اور قیمتوں میں اصلاحات؛
- آبی ذخائر کی نقشہ بندی اور ریئل ٹائم ڈیٹا نظام کی تشکیل؛
- ری چارج اور ڈرینیج کے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری؛
- کم پانی استعمال کرنے والی فصلوں کی کاشت کو فروغ؛
- موثر آبپاشی نظام کے لیے مراعات؛
- عوامی آگاہی اور ادارہ جاتی تربیت۔
انہوں نے اسرائیل اور امریکہ کی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل 90 فیصد صاف شدہ فضلہ پانی دوبارہ استعمال کرتا ہے، جبکہ امریکی شہروں سینٹ پال اور ڈلوُتھ نے اصلاحات کے ذریعے اپنے پانی کے استعمال میں 50 فیصد کمی کی۔
نظام مقبول نے زور دیا کہ پاکستان کو پانی کی قیمتوں کو جدید خطوط پر استوار کرنا، دریائے سندھ کے بیسن میں علاقائی تعاون بڑھانا اور سائنسی بنیادوں پر پانی کے نظم و نسق کو فروغ دینا ہوگا۔
اختتام پر ڈاکٹر فیصل علی نے کہا کہ زیرِ زمین پانی کا بہتر انتظام صرف پائیداری کا نہیں بلکہ پاکستان کی طویل مدتی سلامتی کا بھی معاملہ ہے، جس کے لیے ٹھوس اور شواہد پر مبنی پالیسی اقدامات ناگزیر ہیں۔


